حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آیت الله العظمی شبیری زنجانی نے حوزہ علمیہ کے ڈائریکٹر کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ مدارس کا اسٹرکچر حوزہ ھای علمیہ کے اعلی سطحی دروس کے لئے غیرمناسب اور طلبہ کی استعداد کے ختم ہونے کا باعث ہے۔
آیت اللہ العظمی شبیری زنجانی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: ممکن ہے کہ ایک شخص زید اور عمر کے بیان کو پسند نہ کرتا ہو تو اب اس وقت کیوں وہ اسی درس میں ہی بیٹھے؟۔ طلبہ کو استاد کے انتخاب میں آزاد ہونا چاہئے اور اس میں اسے کسی بھی قسم کی محدودیت نہیں ہونا چاہئے چونکہ یہ چیز طالبعلم کی استعداد کو ختم کرنے کا سبب بنتی ہے۔
آیت اللہ العظمی شبیری زنجانی اس ملاقات میں ڈائریکٹر حوزہ علمیہ کی توجہ کو مستعد طلبہ کی طرف مبذول کراتے ہوئے کہا: سابقہ علماء مستعد اور ہوشیار طلبہ کو خاص اہمیت دیا کرتے تھے لیکن اب اکثر قابل استعداد طلبہ مالی مشکلات کی وجہ سے درس اور تحقیق کو بطریق احسن انجام نہیں دے پاتے ہیں۔
انہوں نے آیت الله مرتضی مطهری کی تہران کی طرف ہجرت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: مرحوم آقای مطہری اپنی مالی مشکلات کی وجہ سے قم سے تہران کی طرف گئے تھے بلکہ اس طرح بھی ممکن ہے کہ میں کہوں کہ تہران میں بھی ان سے استفادہ کیا گیا ہے لیکن اگر وہ قم میں ہی رہتے تو یقینا اپنی استعداد کی بنا پر زیادہ موفقیت کو حاصل کرتے۔
آیت اللہ العظمی شبیری زنجانی نے گذشتہ علماء کی سیرت کو بیان کرتے ہوئے کہا: مرزا شیرازی مرحوم آخوند کے سالیانہ خرچ کو دیا کرتے تھے، با استعداد طلاب کے متعلق مخصوص سرمایہ گذاری کیا کرتے تھے، صاحب معالم اور صاحب مدارک بھی محقق اردبیلی کے پاس ایک غیر معمولی درس میں شرکت کیا کرتے تھے۔ اس وقت طلاب ان لوگوں کا تمسخر کیا کرتے تھے کہ یہ کون سا درس ہے جس میں آپ لوگ جاتے ہو؟۔ محقق اردبیلی نے جواب دیا: میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ افراد اپنے علاقوں میں جا کر صاحب رسالہ بن چکے ہیں جبکہ تم لوگ اب تک ویسے کے ویسےہی یہاں پر موجود ہو۔
انہوں نے مزید کہا: مرحوم حاج آقا رضا زنجانی کہا کرتے تھے کہ میں نے مرحوم حاج شیخ عبدالکریم حائری سے کہا کہ سید محمد تقی خوانساری کے بارے میں آپ کی کیا نظر ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ علمی اور عملی حوالے سے حوزہ میں ان کی کوئی مثال نہیں ہے۔میں نے ان سے کہا کہ وہ اقتصادی مشکلات کی وجہ سے(علم دین سے ہٹ کر کوئی اور) کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے آقای خوانساری کے لئے ایک مخصوص شہریہ کا بندوبست کر دیا۔
آیت اللہ العظمیٰ شبیری زنجانی نے تقویٰ، اخلاقی تربیت اور وجوہات شرعیہ کے مصرف میں خاصی دقت کو حوزہ علمیہ میں ضروری جانتے ہوئے کہا: ’’شیخ انصاری اور فاضل اردکانی ایک تشییع جنازہ میں شرکت کرتے ہیں اور چونکہ نجف میں گھر چھوٹے ہوا کرتے تھےلہذا (جگہ نہ ہونے کی وجہ سے)وہ گلی میں ہی بیٹھ جاتے ہیں۔ شیخ زمین پر بیٹھتے ہیں اور فاضل پاؤں کے بل بیٹھ جاتے ہیں۔ شیخ انصاری نے فاضل اردکانی سے کہا کہ آپ ایک عمررسیدہ آدمی ہیں اور آپ کا اس طرح بیٹھنا آپ کی صحت کے لئے ٹھیک نہیں ہے تو فاضل انہیں جواب دیتے ہیں کہ میرا لباس وجوہات شرعیہ سے بنایا گیا ہے، مجھے اپنے کپڑے دھونے کے لئے صابن اور پانی پر خرچ کرنا پڑے گا اور معلوم نہیں کہ وجوہات سے اس قسم کا مصرف آیا صحیح ہے یا نہیں۔ اور یہ کہ بار بار کپڑوں کا دھونا انہیں جلد ختم کرنے کا بھی باعث بنتا ہے۔شیخ اور فاضل اردکانی کے درمیان اسی بات پر مباحثہ زور پکڑتا ہے اور بعد میں سب دیکھتے ہیں کہ شیخ انصاری بھی پاؤں کے ہی بل بیٹھ جاتے ہیں‘‘۔
آیت اللہ العظمی شبیری زنجانی نے اس ملاقات میں علماء یزد کے بارے میں ایک مجموعے کی اشاعت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: صوبہ یزد میں بہت بڑے علماء گذرے ہیں کہ جن کا پراکندہ طور پر مختلف منابع میں ذکر بھی ہوا ہے۔ اگر اس خطے کے علماء کرام کی معرفی پر مشتمل ایک مجموعہ شائع کروا دیا جائے تو کیا ہی اچھا اور مستحسن اقدام ہو گا۔